ملائشیئن پولیس اور میں

ملائشیئن پولیس کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ رشوت خور ہے، خواہ مخواہ تنگ کرتی ہے، بدتمیز ہے، وغیرہ وغیرہ
میں تقریبا 5 سال تک ملائشیا میں رہا اس دوران چند واقعات ایسے ہوئے کہ جب پولیس نے راستے میں چلتے یا گاڑی میں روکا ہو۔ رویہ تقریبا ٹھیک لگا، رشوت سر عام تو نہیں مانگی گئی البتہ حیلے بہانے سے کوشش ضرور کی گئی۔ پولیس سٹیشن لے جانے کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ میرے 5 سال کے دوران پولیس کے ساتھ پیش آئے واقعات کچھ اس طرح ہیں۔

نمبر1۔  اس وقت میں نیا نیا ملائشیا گیا تھا، ملائشیئن زبان اور وہاں کے لوگوں کوابھی نہیں سمجھا تھا۔ شام کا وقت تھا کچھ دوستوں کے ساتھ پیدل ریسٹورنٹ کی طرف جا رہے تھےکہ اچانک سادہ لباس میں چند لوگوں نے ہمیں گھیر لیا کہ ہم پولیس ہیں اپنے پاسپورٹ چیک کراؤ، پولیس کا رویہ کافی سخت تھا۔ لیکن پاسپورٹ چیک کرانے کے بعد مجھے جانے دیا جبکہ ایک دوست کو پاسپورٹ نہ ہونے کہ وجہ سے پولیس سٹیشن لے گیے۔ اسے چھڑانے گئے تو وہاں پہنچ کر یاد آیا کہ ہمیں تو ان کی زبان بھی نہیں آتی۔ خیر ایک دوست ساتھ تھا جو مجھ سے قدرے پرانا تھا اس نے بات چیت کی۔ لین دین کی بات ہوئی اور یوں اس دوست کو لے کر گھر آ گئے۔

نمبر2۔ کوالالمپور شہر میں ایل آر ٹی کا سفر کر کے ایک سٹیشن پر اترا۔ سٹیشن سے باہر آ رہا تھا کہ ایک بار پھر سادہ لباس میں پولیس نے روک لیا۔ اس بار بھی پاسپورٹ دکھا کر جلدی ہی جان بخشی ہو گئی۔ پولیس کا رویہ قدرے بہتر تھا۔

نمبر3۔ ایک دکان پر کام کرتے ہوئے پولیس آ گئی۔ کافی چھان بین کے بعد جب کوئی بات نہیں ملی تو کہنے لگے تمہارا ویزہ اس دکان کا نہیں ہے۔ بس اس بات کو لے کر کافی دیروہ کھڑے رہے۔ اور ہماری دکان کا کام رکا رہا۔ ابھی اتنا پرانا نہیں ہوا تھا اس لیے میں سمجھ نہیں پایا کہ یہ بغیر پیسے لیے واپس نہیں جائیں گے۔ آخر کافی دیر بعد ایک پولیس والے نے جو نسبتا سمجھدار لگ رہا تھا۔ مجھے اشاروں میں سمجھایا۔ مجھے سمجھ آئی تو 150 رنگٹ ان کے ہاتھ پر رکھا اور یوں جان چھوٹی۔ رویہ اس بار بھی تقریبا ٹھیک تھا۔ پر پہلی بار کسی کو رشوت دی جس پر ندامت کے ساتھ غصہ بھی آ رہا تھا کہ یہ کس دنیا میں پھنس گیا ہوں۔

نمبر4۔ رات کے تقریبا 12 بجے تھے۔ ایک دوست کی کال آئی کہ فلاں دوست کو پولیس نے پکڑ لیا ہے تمہارے پاس ویزہ ہے تم اس کا بھی پاسپورٹ لے کر جاؤ تاکہ پولیس اسے چھوڑ دے۔ میں نے اپنا اور اس کا پاسپورٹ لیا اور جائے وقوعہ پر پہنچ گیا۔ پولیس کا اس لڑکے کا پاسپورٹ دیا۔ پاسپورٹ دیکھ کر انہیں کافی ناگواری گزری۔ شاید جیب گرم کرنے کا ارادہ تھا اور میں نے پاسپورٹ لا کر ان کے رنگ میں بھنگ ڈال دی تھی۔ اب ان کی توپوں کا رخ میری طرف تھا۔ مجھ سے پوچھ گچھ شروع ہو گئی۔ جب ہر طرح کی تسلی ہوگئی اور انہیں یقین ہو گیا کہ اب پیسے نہیں بن سکتے تو وہ جانے لگے کہ اچانک ایک پولیس والے کو اس لڑکے کے موبائل کوئی ممنوعہ ویڈیو مل گئی۔ پولیس والوں کی تو جیسے عید ہو گئی۔ مجھے چھوڑ دیا گیا اور اس لڑگے سے شاید 200 رنگٹ لے کر چھوڑا تھا۔ اس بار رویہ بہت سخت تھا۔ کنفرم رشوت لینے کے موڈ میں تھے۔

نمبر5۔ ایک دوست کے ساتھ سریمبن جا رہا تھا۔ ہائی وے وے اترتے ہی پل کے ساتھ پولیس کھڑی تھی۔ پاسپورٹ وغیرہ چیک کیے۔ سب ٹھیک تھا۔ چونکہ ڈرائیونگ میرا دوست کر رہا تھا اس سے ڈرائیونگ لائسنس مانگا۔ اس کا لائسنس شاید ایکسپائر ہو چکا تھا جس پر اسے 100 رنگٹ دینے پڑے۔ پولیس کا نرم لہجہ لیکن رشوت طلب رویہ تھا۔

نمبر6۔ جوہر بارو جاتے ہوئے پولیس نے روکا۔ اوور سپیڈنگ پر تنبیع کی اور کہا کہ گاڑی آہستہ چلائیں یہ آپ کی حفاظت کے لیے ہے۔ اور ساتھ ہی کہا اللہ حافظ خیریت سے منزل پر پہنچیں۔ میں بہت حیران تھا۔ پولیس کے ساتھ پہلا ایسا واقعہ پیش آیا تھا کہ ان کی تعریف کرنے کو دل کر رہا تھا۔ لیکن کیسے کرتا یہ تو جے پی جے تھی۔

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post