آسٹریلیا کے امیگریشن کیمپ میں اس وقت ہنگامہ مچ گیا جب لاتعداد قیدیوں نے رہائی کے لیے احتجاج شروع کر دیا۔ ان میں سرفہرست نیوزی لینڈ کے شہری تھے۔ قیدیوں نے مختلف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ان کی صحت سے متعلق نعرے درج تھے۔
قیدیوں کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس وبا پھیلنے کے بعد ہمارے لیے کوئی حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے۔ سماجی فاصلے کا بھی خیال نہیں رکھا جا رہا۔ ایک قیدی کا کہنا تھا کہ ہم 120 افراد ایک ہی عمارت میں رہتے ہیں جہاں سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ناممکن ہے۔
ڈاکٹروں اور انسانی حقوق کے وکلاء نے قیدیوں کی زندگی شدید خطرے میں قرار دے دی ہے۔
سڈنی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ قیدیوں کے ساتھ پولیس اور ڈیوٹی پر موجود گارڈز کو بھی وائرس کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ برسبین میں ایک گارڈ پہلے ہی کرونا وائرس کا شکار ہو چکا ہے۔ ڈر ہے کہ وبا تیزی سے پھیلی تو ہمارا صحت کا نظام اسے قابو نہیں کر پائے گا۔
انسانی حقوق کے وکیل گریگ کا کہنا تھا کہ زیادہ آبادی والے علاقوں میں کرونا جنگل میں آگ کی طرح پھیل رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس کثیر تعداد میں لوگ موجود ہیں جن کی صحت کو پہلے سے ہی شدید خطرات لاحق ہیں اور مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ غیر محفوظ فضا ہے۔
دریں اثنا اقوام متحدہ نے قیدیوں کی رہائی کا فوری مطالبہ کر دیا ہے۔ جبکہ 1100 ڈاکٹرز بھی قیدیوں کی رہائی کے لیے قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں۔
آسٹریلوی حکام کا کہنا تھا کہ اب تک کوئی بھی قیدی کرونا کا شکار نہیں ہوا ہے۔ ہم کسی بھی قسم کے حالات سے نبٹنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔
وزیر خارجہ ونسٹن کا کہنا تھا کہ ہم نیوزی لینڈ کے صحت کے نظام کی جانچ کر رہے ہیں اور دو طرفہ تعاون کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
نیوزی لینڈ سے 150 قیدی سزائیں مکمل کرنے کے بعد ملک واپس جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ یار رہے کہ کرونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے آسٹریلیا نے مارچ میں ہی اپنے بارڈر بند کر دیے تھے،
