سٹور سے باہر نکلتے ہی میری نظر اس پسینے میں بھیگی قمیض پر پڑی جو ایک حلال روزی کمانے والے نے پہنے ہوئی تھی
اے سی سے باہر نکلتے ہی گرمی کی تپش سے آدھی آنکھیں بند ہو رہی تھیں خیال آیا ان بزرگ کا سانس کیسے چل رہا اتنی گرمی میں؟
سیڑھیاں اترنے تک میں فیصلہ کر چکا تھا
کہ چھوڑو سب کچھ آج بھنڈی ہی پکاتے ہیں اسی بہانے ان کا کچھ سامان فروخت ہو جائیگا یہ سوچ کر جب ان کے پاس گیا ریٹ پوچھا بولے بیٹا 100 روپے کلو،
عادت سے مجبور ہو کر بھی میں نے بھاؤ کم کرنے کی بات نہ کی... (ہمت ہی نہ ہوئی) میں نے کہا 2 کلو دے دیں... انہوں نے شاپر میں ڈالیں میں نے 500 کا نوٹ دیا بولے بیٹا میرے پاس کھلے پیسے نہیں ہیں تم پہلے ہی گاہک ہو آج سارے دن میں...
پہلے میں نے سوچا 500 ہی دے دوں پر خیال آیا کہ اگر ان میں خودداری نہ ہوتی تو یوں سڑک کنارے سخت گرمی میں نہ بیٹھتے صبح سے...
ترکیب سوجھی کہ چلو آج محلے داروں کو بھی بھنڈیاں تحفے میں دیتے ہیں یہ سوچ کر اندر ہی اندر بڑا خوش ہوا کہ اب تو بابا جی بھی فارغ ہو کر گھر جا سکیں گے...
یوں میں نے بابا جی کے پاس جو 5 کلو بھنڈیاں تھیں ان کا سودا کیا اور خود ہی شاپر میں ڈالنے لگا ان کی آنکھوں میں چمک سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا
وہ اپنا پسینہ بھول چکے تھے اور دل ہی دل میں شاید گھر جلدی جانے کی خوشی منانے لگے...
میں نے بابا جی کا شکریہ ادا کیا اور اپنی راہ لی، اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے بابا جی نے جو میری نیت کو شاید بھانپ چکے تھے کہنے لگے.....
پُتر بُرا نا مانو تو ایک بات پوچھوں؟
میں نے کہا ضرور بابا جی....
بولے، بھنڈیاں تو 1 کلو ہی کافی ہوتی ہیں تم نے کھلے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے 5 کلو لے لی ہیں یا مجھ پر ترس کھا کر لے لیں؟؟؟
میں نے کہا بابا جی ترس آپ پر نہیں بلکہ خود پر اور اپنے جیسے ان ہزاروں لوگوں پر آیا ہے جو بڑے بڑے سٹورز سے خریداری کرنے کو امیری سمجھتے ہیں
اور آپ جیسے محنتی اور بزرگ لوگوں کو نظر انداز کرتے ہیں اس بات کے آگے نہ انکے پاس کوئی دلیل تھی نہ میرے پاس....
گھر واپس آیا، بیگم کو قصہ سنایا اور کہا محلے کے غریب گھروں میں بھنڈیاں تقسیم کر دو...
اس دن سے میں تو ان بابا جی سے ہی سبزی لیتا ہوں، اگر آپ کے نزدیک بھی کوئی ایسا غریب رزق حلال کمانے والا ہے
تو ایک بار آزما کر ضرور دیکھنا زندگی میں سکون آنے لگ جاے گا ۔۔۔
احساس زندگی ہے
